بھٹو کیس اور وفاق
ہم مل آئے اپنے آپ سے! یہ بھٹو کیس نہ تھا ، یہ ہم تھے۔ہم اس راہ سے نہ گزرتے تو ادھورے رہ جاتے اور اب جو گزر رہے ہیں تو پھر بھی تشنگی ہے۔
اگر کوئی تبصرہ بھی کرے تو کیسے کرے۔کوئی شکوہ تھوڑی ہے جو کہہ دینے سے کم ہوجائے گا۔کئی آئینی و قانونی نکتے اور پیچیدگیاں ہیں جن کے جواب ملنے ہیں، جب یہ مکمل فیصلہ آئے گا۔ سپریم کورٹ کے جس قانونی دائرہ اختیار میں اس کیس کی سنوائیاں ہوئی ہیں، وہ مشاورتی دائرہ اختیار کی Jurisdiction ہے۔ فیض کے ان اشعار کی مانند یہ ایک قرضہ تھا۔
ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
کوئی دکھ کا مداوا تھا مرہم نہ تھا، تنکے کا ہی سہی آسرا تھا، منزل نہ تھی چراغ نہ تھا۔پورے شواہدات اور ریکارڈ دوبارہ کھلا نہیں کیونکہ Reappraisal دائرہ اختیار میں یہ ممکن نہ تھا۔اگر اس کیس کو miscarriage of justice کے مشاورتی دائرہ اختیار میں کھولا جاتا تو وہ Jurisdiction ہمارے آئین میں وضع نہیں ہے اور ہو بھی تو سپریم کورٹ کا فیصلہ چیلنج نہیں ہو سکتا کہ یہ فیصلہ حرف آخر ہے، اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ حرفِ آخر نہ بنے تو اس ملک کا سسٹم ہی بیٹھ جاتا۔
یہ حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ اپنے دائرہ اختیار کا تعین خود کرسکتی ہے اور سوموٹو جیسے فیصلے لے سکتی ہے۔اگر سپریم کورٹ کے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو ماضی میں کس قدر بے دردی سے اس دائرہ اختیار کا استعمال ہوا۔اس دائرہ اختیار کے اندر کتنے بڑے فیصلے کیے گئے، نا انصافیاں برپا کی گئیں۔2013 میں صدر زرداری نے بھٹوکیس کا ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔اب کہیں جاکر امید کی کرن جاگی، اب کہیں جاکر وہ وقت آیا کہ اب بھٹو کو انصاف ملے گا۔بھٹو کا کیس ایک ایسا قتل جو کسی اور نے نہیں بلکہ اعلیٰ عدالتوں کے ججز نے خود کیا تھا، ایک آمر کی خوشنودی کی خاطر۔
اس کیس کا دوبارہ کھولنا ناممکن سی بات تھی۔بات یہ نہیں کہ بھٹو کے ساتھ نا انصافی ہوئی لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیس اگر سپریم کورٹ کی آخری مہر لگنے بعد یہ کیس کھلا تو ایسے کئی غلط فیصلے ہیں ، نا انصافیاں ہیں، وہ کیس بھی کھولنے پڑیں گے ، اگر ایسا ہوا تو اعلیٰ عدالت کی ساخت اور حرفِ آخر ہونے کے سوال کا کیا جواب ہوگا۔
یہ سوال صرف سپریم کورٹ کی ساخت کا نہیں بلکہ پاکستان کے تمام عدالتی نظام کا تھا،اگر بھٹو کو انصاف نہ ملا تو وفاق کمزور ہ جاتاہے۔نظریہ ضرورت سے لے کر جسٹس چوہدری افتخار کے زمانے تک جو سو موٹو لیے گئے ان کی بات تو الگ مگر ایک سمت تھی جو اعلیٰ عدالت نے طے کرنی تھی، وہ سمت سپریم کورٹ نے عاصمہ جہانگیر کے کیس میں درست کرنے کی کوشش کی، مگر پھر سے وہ زخم تازہ ہوئے، پھر جسٹس ثاقب نثار نکل پڑے ڈیم بنانے کے لیے۔ہر روز کسی نہ کسی مسئلے پر سوموٹو لیے گئے۔
اب سپریم کورٹ کا اعتراف کرنا بڑی بات ہے کہ ان سے غلطی سرزرد ہوئی۔جو بھی ہوا لیکن یہ بات بڑی ہے کہ ان چار ججوں کے چہروں سے نقاب اترا اور ساتھ لاہور ہائی کورٹ کاجج بھی بے نقاب ہوا۔اب رہ گئے وہ تین جج جنھوں نے اس ظلم کا ساتھ نہ دیا۔یہ بات نہ چھوٹے صوبوں کی ہے نہ ہی پنجاب کی ، یہ مخصوص سوچ اور مائنڈ سیٹ ہے ۔اسی کی بنیاد پر ہم خود ہی چھوٹے اور خود ہی بڑھے بن جاتے ہیں۔
بھٹو کیس میںسپریم کورٹ کے مشاورتی دائرہ اختیار میں، میں نے بھی ایک درخواست دائر کی تھی کہ سندھ کے موٌقف کی پیروی کی جائے اور اسی طرح بلاول بھٹو نے بھی ایک درخواست دائر کی مگر یہ درخواستیں یہ کہہ کر واپس کردیں کہ بھٹو کیس سپریم کورٹ میں آرٹیکل 186 کے تحت سنا جارہا ہے اور اس کی سنوائیاں سپریم کورٹ کی Advisory Jurisdiction میں سنی جارہی ہیں، لہٰذا آپ کی درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔
چارٹر آف ڈیموکریسی میں بھی ایسا ہی لکھا ہے جس کو اس ملک کے دو بڑے لیڈروں نے سائن کیا ہے جس میں یہ تحریر کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اور اپیلیٹ کورٹ کو الگ الگ کرکے سپریم کورٹ کے ججز چاروں صوبوں سے برابر لیے جائیں گے اور ایسا ہی سپریم کورٹ کی بار کے انتخابات میں بھی ہوتا ہے۔سپریم کورٹ بار کا صدارتی امیدوار چاروں صوبوں میں جو rotate ہوتا ہے۔
دنیا کی مہذب قوموں امریکا و برطانیہ نے اپنے آ ئین کے ذریعے miscarriage of justice کا دائرہ اختیار الگ وضع کیا ہوا ہے۔اب ضروری ہے کہ ہماری پارلیمنٹ بھی ایسے دائرہ اختیار واضح کرے جہاں فوجداری مقدموں میں ایسے فیصلے صادر کیے گئے جن میں miscarriage of justice ہوا جہاں ججزنے مقدموں میں جان بوجھ کے اور مرضی کے غلط فیصلے صادر کیے اور ان فیصلوں کی بنیاد پر کڑی سزائیں دی گئیں یا پھر لوگوں کو سولی پر چڑھایا گیا، وہ مقدمے بھلے ہی پرانے ہو چکے ہوں مگر ان فیصلوں کو پہلے ایک کمیشن مرتب کرکے اس کمیشن میں بھیجا جائے جو ان مقدمات کے شواہدات کی دوبارہ تشخیص کریں اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ واقعی کسی مقدمے میں عدا لت کی طرف سے کوتاہی برتی گئی ہے یا پھر غلط سزا سنائی گئی ہے تو پھر اس مقدمے کو دوبارہ کھولا جائے پھر چاہے وہ مقدمہ سپریم کورٹ کا حرفِ آخر ہو۔
اسی طرح بھٹو کیس کے شواہدات کی دوبارہ تشخیص ہونی چاہیے۔فی الحال یہ ہوا ہے کہ بھٹو کو شفاف ٹرائل نہیں مل سکا اور بھٹو کو سزا دیتے وقت ان انسانی حقوق کو پامال کیا گیا جو آئین کے اندر وضع کیے گئے ہیں اور جس کی گارنٹی اس ملک کا آئین دیتا ہے پاکستان کے ہر شہری کے لیے۔ہاں مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دیر آید درست آید۔
بھٹو کیس پاکستان لیگل ڈائجسٹ PLD میں رپورٹڈ ہے ۔ اب وہاں سے بھٹو کیس خارج ہو جائے گا کیونکہ اب وہ precedenceنہیں رہا جس کا حوالہ مقدموں میں دیا جا تا ہے ۔اس کیس کے کھلنے سے ایک چوالیس سال سے لگا ہوا داغ سپریم کورٹ کے ماتھے سے مدہم ہوا کیونکہ اعلیٰ عدلات نے اپنا احتساب خود کیا جو کہ ایک بہت بڑی جرات تھی۔آج پاکستان ٹوٹا نہیں بلکہ مضبوط ہوا ہے وفاق کمزور نہیں توانا ہوا ہے۔
اب ادارے اپنا احتساب خود کریں ان لوگوں کا جو ان اداروں کے اندر تھے اور انھوں نے اس ملک پر آمریت مسلط کی، مذہبی انتہا پرست کو ہوا دی،جمہوریت کو کمزور بنایا اور آئین کو یرغمال بنایا۔بھٹو کیس وفاق کے اندر دراڑیں ڈال رہا تھا۔میرے والد اس بات کو با خوبی جان گئے تھے حالانکہ نظریاتی طور پر وہ بھٹو کے سخت مخالف تھے مگر وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ جس طرح ججوں کی تقسیم ہوئی ہے، وہ اس ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوگی۔
میں نے اس بات کا تذکرہ پہلے بھی کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے فورا بعد چوالیس سال پہلے میرے والد نے جنرل ضیاء الحق کو ٹیلیگرام بھیجا کہ بھٹو کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ فیصلہ وفاق کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔وفاقی نظام چلانا آسان نہیں، اٹھارہویں ترمیم وفاق اور اس ملک کے نظام کو مضبوط بناتی ہے۔
بھٹو ایک عظیم لیڈر تھا۔سپریم کورٹ کو اس مقدمے میں صرف آئینی اور قانونی پیچیدگیاں دیکھنی تھیں اور وہ بھی آرٹیکل 186 کے محدود اسکوپ یعنی مشاورتی دائرہ اختیار میں۔ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک سازش کے تحت بھٹو صاحب کو سولی پر لٹکایا گیا۔ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کر کے۔ یہ ٹریجڈی شیکسپیئر کے ڈرامےMacbeth سے مماثلت رکھتی ہے۔
ایک آمر نے یہ کام لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج اور چار سپریم کورٹ کے ججوں سے لیا اور سپریم کورٹ کے ایک جج نے اپنی زندگی میں اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ جرم ان سے جنرل ضیاء الحق نے کرایا۔