راسپوتین
پسماندگی کی دلدل میں دھنسا ہے جناح کا پاکستان، پیری مریدی کے سلسلوں سے مغلوب پاکستان، بھوک و افلاس کی گردش میں غلطاں۔ کتنی نرالی ہے میرے ارضِ وطن کی کہانی ۔ فیض کی ان سطروں کی مانند۔
امیدِ یار نظر کا مزاج درد کا رنگ
تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اداس بہت ہے
ستم تو یہ ہے کہ سب ساتھ کھڑے ہوتے ہیں مفادات کے لیے، بھلے کتنے ہی مختلف بیانیہ رکھتے ہوں۔ ان کے پیروکار آمنے سامنے ہوتے ہیں، مگر ان کے رہبر رات کے لبادے میں ملتے تھے۔
جنرل کلاشنکوف کو یہ پتا نہ تھا کہ اس کی کلاشنکوف بیچنے والا قاتل بھی ہے اور مقتول بھی ہے۔ اس سے نکلنے والی گولی دوست بھی اور دشمن کی بھی۔ اس سے خود کشی بھی ہے اورگھنگھرو پاؤں میں ڈالے مست و الست کوئی رومی کی طرح نا چنے والا بھی۔ اس ملک میں نہ اب جناح ہے اور نہ رومی کا مست رقص۔ نہ گیارہ اگست کی تقریرکا وجود ہے۔ ان لوگوں کا کاروبارکیا تھا؟
لوگوں کے دیے ہوئے ٹیکسز پر ڈاکا مارنا، لوٹ کھسوٹ کے اس کاروبار میں جمہوری اقدار کو روندا گیا۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کمزور بنیادوں پر تھی، ارتقاء کی منازل طے کر رہی تھی اور آخر ایسا دن بھی آتا کہ وہ اپنے قدم جما لیتی۔ اس ہندوستان کی طرح جو 1947 تک ہمارا عکس تھا۔
رانگ نمبرز تو وہاں پر بھی ہیں، مذہب کا سیاست میں استعمال وہاں پر بھی کیا جاتا ہے۔ وہاں پر بھی پنڈت اور پجاری، ملا اور پادری ہیں، مہنت اور سادھو ہیں مگر وہاں جمہوریت چلتے چلتے مضبوط ہوگئی، جو پچھتر سالوں میں بھی ہمارے یہاں نہ ہوسکی۔ یہ اس کمزور جمہوریت کا عکس ہے جہاں آج ہم کھڑے ہیں۔
کراچی جیل میں ایک قیدی تھا، وہ پیر بن گیا۔ جنرل مشرف کے دور میں یہ جیل یاترا بہت سے سیاستدانوں کو نصیب ہوئی اور وہ سیاستدان اس پیرکے مرید بن گئے، وہ پیر پہلے لکھ پتی تھا، لکھ پتی سے کروڑ پتی بن گیا، وہ پیر جو بینک میں غبن کے کیس میں سزا کاٹ رہا تھا۔
جب میں نے آنکھ کھولی میرے پاس کچھ نہ تھا۔ بس ایک شمع تھی دلیل سحر۔ ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں میری عمر بیس سال تھی، اس دور میں، میں دوستووسکی، گورکی، سبطِ حسن کی ’’ موسیٰ سے مارکس تک ‘‘ پڑھتا تھا۔ میرے ایک طرف بھٹائی، باہو اور فرید تھے اور دوسری طرف مشرق و مغرب کا فلسفہ تھا مگر رہتا زمینی حقائق میں تھا۔ میرے اپنے دہقان تھے اور ان کی تحریک تھی جو مجھے ورثے میں ملی تھی۔ یہ دہقان اپنے محسنوں کو جاننے کی سمجھ نہ رکھتے تھے، وہ سندھ کے پیروں اور وڈیروں کو اپنا محسن مانتے تھے۔
ان کا یہ اعتقاد ہے کہ پیر ان کی عاقبت سنواریں گے اور وڈیرہ ان کو تھانہ کچہری سے چھٹکارا دلائے گا، غلامی جڑوں تک بسی ہوئی تھی۔ ان کی چھتوں میں سریا نہیں اور کواڑوں میں قفل نہیں، بس ایک قبا تھی مفلسی کی جس پر غربت کے پیوند تھے۔ رلی انھیں غریبوں کے پرانے کپڑوں سے بنتی تھی، جسے وہ اوڑھتے اور چارپائیوں پر بچھاتے تھے اور اب یہ رلی امیروں کے ڈرائنگ روم کی شان ہے۔
میں نے ان دہقانوں اور ان کے بچوں کو وڈیروں کی حویلیوں میں نیچے فرش پر بیٹھتے دیکھا۔ سندھ کے ان دہقانوں کو میلے کچیلے، پیوند لگے کپڑوں کے ساتھ ان وڈیروں کی اوطاقوں پر چاکری کرتے دیکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو سندھ کے لیڈر بن کر ابھرے اور ان دہقانوں کے لیے روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔
فقیر محمد لاشاری مجھے کہتے تھے کہ’’ یہ حیدر بخش جتوئی اور میرے والد قاضی فیض محمدکی دہقان تحریک کا ثمر تھا کہ بھٹو صاحب نے سندھ کے دہقانوں کے لیے روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا اور ان کو ووٹ کا شعور دیا کہ ووٹ ان کا بنیادی حق ہے۔‘‘
ان حالات میں وڈیروں کے گروہ بن گئے، ایک گروہ آمریت کا انتظار کرنے لگا اور دوسرا گروہ الیکشن کے وقت اپنے حلقوں کے دہقانوں کے گھروں میں پیر پسار کے بیٹھ جاتے تھے، منت اور سماجت کرتے کہ ان کو ووٹ دیا جائے اور ان غریب دہقانوں کی محدود سوچ ان کو مجبور کردیتی تھی کہ ان کا وڈیرہ چل کر ان کے پاس آیا ہے۔
یہ کام اگر سیاسی پیروں اور خود کو سید کہلانے والوں سے نہ ہوتا تو وڈیروں سے کرایا جاتا تھا جو مذہبی اور روحانی تقدس کے لبادے میں قید نہ تھے، سندھ کا پیر طبقہ تو ہمیشہ آمریت پسند رہا ہے مگر سندھی وڈیرے اس ضمن میں بہرحال جمہوریت پرست رہے۔
آصف زرداری انھیں وڈیر شاہی کا ترجمان ہے۔ ان پچاس برسوں میں سماجی اور معاشی اعتبار سے توڑ پھوڑ ضرور ہوتی رہی لیکن جمود نہ ٹوٹا۔ کے پی کے میں خان نہ رہا، پنجاب میں چوہدری نہ رہے، بلوچستان میں سردار ٹوٹتا نظر آرہا ہے مگر سندھ میں وڈیرہ شاہی اور پیر شاہی آج بھی اقتدار اور سیاست پر قابض ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی ریاست مدینہ کی باتیں کرتے رہے، ہاتھ میں تسبیح لے کر گھومتے رہے، کبھی روحانیت توکبھی طالبانیت کے پیچھے چھوپتے نظر آئے، لندن سے بھی کمک ملتی رہی، جس طرح سندھ کے وڈیرے اقتدارکے لیے ہر حربہ استعمال کر سکتے ہیں، اسی طرح چیئرمین پی ٹی آئی بھی اقتدار کے لیے کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ جن سے پردہ اٹھایا ہے خاور مانیکا نے۔ مرے ہوئے کو اب کیا مارنا ! بات یہ ہے کہ خاور مانیکا اس وقت کیوں چپ رہے؟
میں شواہد کا شاگرد ہوں۔ حالات کچھ ایسے تھے کہ خاور مانیکا کے گھر میں کچھ لوگ گھسے، اس گھر میں سازشیں رچائی گئیں،کچھ لوگ ان سازشوں کا حصہ بنے، ان سازشوں میں انتخابات کے دوران آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا، اقامہ پر فیصلے صادرکیے گئے ۔ کیا پیرنی کو بھی کسی’’ پیر‘‘کی سر پرستی حا صل تھی؟ اگر کوئی تھا تو اس ’’پیر ‘‘کے پیچھے کون تھا؟ یہ بات صرف جنرل فیض حمید صاحب کے علم میں تھی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی اصل طاقت لوگوں میں ان کی مقبولیت تھی پھر اس کے پیچھے بھی ایک سسٹم تھا پیری اور مریدی کا۔
سندھ میں ایک طرف گدی نشینوں کا راج ہے اور دوسری طرف ہے مہنگائی، بیروزگاری، بد امنی اور ڈاکو ہیں۔ کوئی جائے تو کہاں جائے۔ یہ ہے میرا پاکستان، جناح کا پاکستان، پچیس کروڑ عوام کی آزاد ریاست جہاں بھوک وافلاس کا ڈیرہ ہے۔
ایک مخصوص ٹولہ ہے جمہوریت کے اس طرف بھی ہے اور اِس طرف بھی۔ سیاسی، معاشی اور سماجی جمود ہے کہ ٹوٹتا نہیں ہے، وہ ہی شرفاء، وہ ہی استحصال، وہ ہی طریقہ پیداوار، ایسا مافیا جو حکومتیں گرا بھی سکتا ہے اور بنا بھی سکتا ہے۔ ہندوستان دنیا کی تیسری معاشی اور فوجی طاقت بننے جا رہا ہے اور ہم ابھی تک افغان پالیسی میں گھرے ہوئے ہیں۔
راسپوتین نے بھی روحانیت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، روس کی ملکہ اس کے سحر میں تھی اور زار روس نکولس اپنی ملکہ کے سحر میں تھا۔ پھر روس کہاں پہنچا، روس تھا تو یورپ میں مگر اس پر اثرات ایشیا کے تھے، دوسری یورپین ریاستوں کی طرح تیزی سے ریفارمز نہیں لا سکا۔ انگلینڈ، جرمنی اور فرانس وغیرہ کے شاہی خاندان بتدریج اپنے اختیارات پارلیمان کو دیتے گئے مگر روسی بادشاہ ’’ریاستی دوما ‘‘ کو اختیارات نہ دے سکے۔
خاور مانیکا نے جن رازوں سے اس وقت پردہ اٹھایا ہے، وہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ راسپوتنی محلاتی سازشیں کس طرح بنتی ہیں اور کیسے ریاست غربت اور انتشارکی دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہے ۔